Thursday, 10 August 2017

Salute to Dr Ruth Pfau ‘Pakistani's Mother Teresa’


یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔
پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔
سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘
کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘
یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘
یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘
یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘
ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
_______
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘
زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا
اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘
انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘
کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘
انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی
جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔اس کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘
یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘
اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘

ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘
ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘
یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘
جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔
وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔

ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘
پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘
یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘
#
اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔
جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ کی مستحق ہیں۔
جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا
بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘
جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔

ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔
ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے
اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔
یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔


Sunday, 29 January 2017

ALI SAFYAN AFFAQI (Writer, Producer, Director) علی سفیان آفاقی،،، ایک تحریر۔۔۔

علی سفیان آفاقی اداکارہ زیبا کے ہمراہ ایک یادگار تصویر

علی سفیان آفاقی
(1933ء ۔ 2015ء)
علی سفیان آفاقی کا شمار ایک طرف بہترین مصنفین کی صف اول میں ہوتا تھا تو دوسری طرف صحافت میں بھی اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا، بطور سفرنامہ نگار بھی ان کا اسلوب جدا گانہ تھا۔فلمی مکالمہ نویسی اور کہانی نویس کی حیثیت سے بھی انہیں نے اپنے آپ کو منوایا۔
علی سفیان آفاقی 22۔ اگست 19333ء کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ میں پرورش پائی اور قیام پاکستان کے بعد لاہورآگئے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجوایشن کی۔ 1951 ء میں اخبار ’’تسنیم‘‘ سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا، بعد ازاں اخبار کے فلمی صفحہ کے انچارج بھی مقرر ہوئے اور یہیں سے ان کا فلمی دنیا سے ربط و ضبط بڑھا۔ فلمی صحافت میں ان دنوں شباب کیرانوی بھی فلمی رسالے کی ادارات کرتے تھے۔ یوں جب شباب کیرانوی نے فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنانے کا ارادہ کیا تو اس فلم کے مکالمے علی سفیان سے لکھوائے۔ اس کے بعد وہ کراچی کے ہفت روزہ ’’نگار‘‘ کے لئے لاہور کی ڈائری اور وقتًا فوقتًا مضامین بھی ’’علی بابا‘‘ کے قلمی نام سے لکھنے لگے مگر روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے طویل وابستگی کی وجہ سے ان کا نام علی سفیان سے زیادہ ’’ آفاقی‘‘ ان کی پہچان بن گیا۔
 علی سفیان آفاقی مختلف اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے جن میں اقوام، آثار، آفاق، نوائے وقت، امروز، احسان، جنگ وغیرہ شامل ہیں۔

 فلمی دنیا میں آفاقی کی شہرت فلم ’’فرشتہ‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ سے ہوئی۔ ان دونوں فلموں کے پر اثر مکالمے انہوں نے تحریر کئے تھے۔ انہی دنوں علی سفیان آفاقی نے ایک کہانی ’’کنیز‘‘ کے نام سے لکھی اور اسے کئی فلم سازوں کو سنایا مگر کسی کو پسند نہ آئی لیکن ان کو یقین تھا کہ اس کہانی کو فلما یا گیا تو اسے پسند کیا جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہدایت کار حسن طارق کے ساتھ مل کر خود اس فلم کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اداکارو حید مراد، محمد علی اور زیبا کو لے کر بحیثیت فلم ساز ’’کنیز‘‘ بنائی۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اسی فلم کے مکالموں پر انہوں نے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ فلم ’’کنیز‘‘ کی کامیابی نے ثابت کردیا کہ وہ مزاحیہ فلموں ہی کے نہیں ڈرامائی مکالمے بھی لکھ سکتے ہیں۔ بعد ازاں فلم ’’سوال‘‘ اور ’’جوکر‘‘ کے مکالموں کو بھی شائقین ہی نہیں قائدین نے بھی سراہا۔ اور پھر علی سفیان آفاقی نے مصنف وفلم ساز کے بعد بطور ہدایت کار فلم ’’آس‘‘ 1973ء میں بنائی جس میں محمد علی اور شبنم نے مرکزی اداکار کئے تھے۔ فلمی رسالہ ’’ممتاز‘‘ کے مالک رشید جاوید کے اشتراک سے بننے والی یہ فلم بھی سپر ہٹ رہی جس نے آٹھ نگار ایوارڈ حاصل کئے، ان میں سے چارایوارڈ علی سفیان آفاقی نے بطور فلم ساز، ہدایتکار ، کہانی نویس اور مکالمہ نویس حاصل کئے بلکہ 1982 ء سے 1984 ء تک تین سال مسلسل نگار ایوارڈ حاصل کرنے کی ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کی۔ علی سفیان آفاقی نیشنل فلم ایوارڈ جیوری کے 1988ء سے 1991ء تک ممبر بھی رہے۔
 علی سفیان آفاقی نے دیگر فلموں ہدایت کار فرید احمد کی فلم عند لیب ،ہدایت کارشریف نیئرکی فلم دوستی، ہدایت کار شمیم آرا کی فلم مس کو لمبو ،پلے بوائے، ہدایت کار لقمان کی فلم آدمی کے مکالمے بھی لکھے۔
 علی سفیان آفاقی نے تیس سالہ فلمی دور میں پچاس سے زائد فلموں کے مکالمے اور کہانیاں لکھیں۔ ان کی چند مشہور فلموں میں ایاز، آدمی، سزا،آس، ٹھنڈی سڑک، فرشتہ، آج کل، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، سوال، دیوانگی، فاصلہ، میں وہ نہیں، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، عندلیب، ہم اور تم، صاعقہ، پلے بوائے، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، کبھی الوداع نہ کہنا، میرا گھر میری جنت، انسانیت، دوستی، نمک حرام، اجنبی، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے، ویر گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ شامل ہیں۔
19899 ء میں انہوں نے لاہور سے ماہ نامہ ’’ہوش ڈائجسٹ‘‘ کا اجرأ کیا اور شام کا ایک روزنامہ اخباربھی شائع کیا مگر کچھ مجبوریوں کی بنا پر دونوں کچھ عرصہ ہی شائع ہو سکے۔ اس دوران نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے ایک ہفت روزہ فیملی میگزین کے اجرأ کا پروگرام بنایا۔ پہلے اسے کراچی سے شائع ہونا تھا مگر جب علی سفیان آفاقی کو مجید نظامی صاحب نے ادارات کی ذمہ داری سونپی تو فیملی میگزین کو لاہور سے نکالنے کے پروگرام کو حتمی شکل دے کر مجید نظامی صاحب کی مشاورت سے سٹاف مکمل کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فیملی میگزین کے بانی ایڈیٹرتھے جو دم آخرتک اسی سے منسلک رہے اور اسے خوب تر بنانے کے لئے کوشاں رہے۔

 علی سفیان آفاقی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں:
  •  دیکھ لیا امریکہ، 
  • امریکہ چلیں، 
  • ذرا انگلستان تک،
  •  دورانِ سفر،
  •  طلسمات فرنگ، 
  • خوابوں کی سرزمین،
  •  نیل کنارے، 
  • یورپ کی الف لیلہ، 
  • عجائبات فرنگ، 
  • گوریوں کا دیس، 
  • موم کا آدم،
  •  یورپ کا کوہ قاف، 
  • پیرس کی گلیاں،
  •  سفر نامہ ترکی،
  •  سفر نامہ سری لنکا، 
  • سفر نامہ سپین، سر چھایا نورجہاں، 
  • شعلہ نوا شورش کاشمیری، 
  • ساحر لدھیانوی،
  •  چاند چہرے، 
  • محمد علی جناح۔
علی سفیان آفاقی 27جنوری 20155ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
بشکریہ طارق جمیل۔۔۔۔

Monday, 20 June 2016

# Ramzan Program (Web Drama) | Ramadan Program based on Pak Tv shows

#رمضان پروگرام

(ویب ڈرامہ)

جس مہینے میں جنت مانگنی چاہیے، اُس مہینے میں میڈیا نے عوام کوکار، موٹرسائکل اور موبائل مانگنے پر لگا دیا ہے۔
   آجکل پاکستانی چنیلز رمضان کے نام پر جو کچھ دکھا رہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔اس ماہ مقدس میں جس طرح سے عوام کی تربیت کی جارہی ہے۔ اس سے ہر دردمند دل اور احساس مسلمان لازمی واقف ہے۔ رمضان ٹرانسمشن کے نام پر سارا دن اور ساری رات جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ میڈیا مالکان صرف ریٹنگ کے چکر میں ایک دوسرے آگے بڑھنے کے لیے ہر طرح کام کر گزرنے کو تیار ہیں۔ ایسے پروگرام جہاں ایثار رواداری کی بجائے لالچ اور طمع کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس ماہ مبارک میں دنیی تربیت کرنے کی بجائے انہیں دنیاوی لوازمات کا لالچ دیا جارہا ہے۔ نفسا نفسی اس کفیت اور اسکے اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے یہ ویب ڈرامہ ترتیب دیا گیا ہے۔ مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ ہم اس پرنہ صرف سوچیں بلکہ اپنی نسلوں کو اس لالچ اورطمع سے بچائیں۔  ہیں سوچنا ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف کچھ کرنا بھی ہوگا۔۔۔ 


DreamArts Creations presents its new webdrama "#RamzanProgram", which is based on the absurd & wacky television programs aired throughout the holy month of Ramadan. This webdrama is meant to subtly make us realize that we have resorted to materialism & fake pretences, even in such a holy month, rather than practicing selflessness & piety. Enjoy the Web Drama and give us your feedback.
#Ramzan  #Ramadan  #RamzanProgram #RamzanTransmission #HolyMonth

Written & Directed by: UMAR DHAMI
Cinematographers: ABDUL BASIT, NADEEM AHMAD
Cast: Ms. ARZU, Ms. SHABNAM, Mr. RAZA MAHMOOD

DreamArts Creation makes documentaries on historical places of Pakistan and the current social issues prevalent in our society. We also venture into making short informative films and motivational videos on social media for societal reform at a mass level.

Enjoy and give us your critique for improvement!!

SUBSCRIBE FOR MORE AWESOME CONTENT!
https://www.youtube.com/user/rajar007

Dreamarts creations Facebook page
https://www.facebook.com/dreamarts.creations/

Google Plus
https://plus.google.com/u/0/+UmaRDhami

Dailymotion:  www.dailymotion.com/rajar007

Blogs: http://umardhami.blogspot.com/

Visit us our Website:  http://www.dreamarts.co