علی سفیان آفاقی
(1933ء ۔ 2015ء)
علی سفیان آفاقی کا شمار ایک طرف بہترین مصنفین کی صف اول میں ہوتا تھا تو دوسری طرف صحافت میں بھی اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا، بطور سفرنامہ نگار بھی ان کا اسلوب جدا گانہ تھا۔فلمی مکالمہ نویسی اور کہانی نویس کی حیثیت سے بھی انہیں نے اپنے آپ کو منوایا۔
علی سفیان آفاقی 22۔ اگست 19333ء کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ میں پرورش پائی اور قیام پاکستان کے بعد لاہورآگئے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجوایشن کی۔ 1951 ء میں اخبار ’’تسنیم‘‘ سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا، بعد ازاں اخبار کے فلمی صفحہ کے انچارج بھی مقرر ہوئے اور یہیں سے ان کا فلمی دنیا سے ربط و ضبط بڑھا۔ فلمی صحافت میں ان دنوں شباب کیرانوی بھی فلمی رسالے کی ادارات کرتے تھے۔ یوں جب شباب کیرانوی نے فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنانے کا ارادہ کیا تو اس فلم کے مکالمے علی سفیان سے لکھوائے۔ اس کے بعد وہ کراچی کے ہفت روزہ ’’نگار‘‘ کے لئے لاہور کی ڈائری اور وقتًا فوقتًا مضامین بھی ’’علی بابا‘‘ کے قلمی نام سے لکھنے لگے مگر روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے طویل وابستگی کی وجہ سے ان کا نام علی سفیان سے زیادہ ’’ آفاقی‘‘ ان کی پہچان بن گیا۔
علی سفیان آفاقی مختلف اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے جن میں اقوام، آثار، آفاق، نوائے وقت، امروز، احسان، جنگ وغیرہ شامل ہیں۔
فلمی دنیا میں آفاقی کی شہرت فلم ’’فرشتہ‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ سے ہوئی۔ ان دونوں فلموں کے پر اثر مکالمے انہوں نے تحریر کئے تھے۔ انہی دنوں علی سفیان آفاقی نے ایک کہانی ’’کنیز‘‘ کے نام سے لکھی اور اسے کئی فلم سازوں کو سنایا مگر کسی کو پسند نہ آئی لیکن ان کو یقین تھا کہ اس کہانی کو فلما یا گیا تو اسے پسند کیا جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہدایت کار حسن طارق کے ساتھ مل کر خود اس فلم کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اداکارو حید مراد، محمد علی اور زیبا کو لے کر بحیثیت فلم ساز ’’کنیز‘‘ بنائی۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اسی فلم کے مکالموں پر انہوں نے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ فلم ’’کنیز‘‘ کی کامیابی نے ثابت کردیا کہ وہ مزاحیہ فلموں ہی کے نہیں ڈرامائی مکالمے بھی لکھ سکتے ہیں۔ بعد ازاں فلم ’’سوال‘‘ اور ’’جوکر‘‘ کے مکالموں کو بھی شائقین ہی نہیں قائدین نے بھی سراہا۔ اور پھر علی سفیان آفاقی نے مصنف وفلم ساز کے بعد بطور ہدایت کار فلم ’’آس‘‘ 1973ء میں بنائی جس میں محمد علی اور شبنم نے مرکزی اداکار کئے تھے۔ فلمی رسالہ ’’ممتاز‘‘ کے مالک رشید جاوید کے اشتراک سے بننے والی یہ فلم بھی سپر ہٹ رہی جس نے آٹھ نگار ایوارڈ حاصل کئے، ان میں سے چارایوارڈ علی سفیان آفاقی نے بطور فلم ساز، ہدایتکار ، کہانی نویس اور مکالمہ نویس حاصل کئے بلکہ 1982 ء سے 1984 ء تک تین سال مسلسل نگار ایوارڈ حاصل کرنے کی ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کی۔ علی سفیان آفاقی نیشنل فلم ایوارڈ جیوری کے 1988ء سے 1991ء تک ممبر بھی رہے۔
علی سفیان آفاقی نے دیگر فلموں ہدایت کار فرید احمد کی فلم عند لیب ،ہدایت کارشریف نیئرکی فلم دوستی، ہدایت کار شمیم آرا کی فلم مس کو لمبو ،پلے بوائے، ہدایت کار لقمان کی فلم آدمی کے مکالمے بھی لکھے۔
علی سفیان آفاقی نے تیس سالہ فلمی دور میں پچاس سے زائد فلموں کے مکالمے اور کہانیاں لکھیں۔ ان کی چند مشہور فلموں میں ایاز، آدمی، سزا،آس، ٹھنڈی سڑک، فرشتہ، آج کل، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، سوال، دیوانگی، فاصلہ، میں وہ نہیں، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، عندلیب، ہم اور تم، صاعقہ، پلے بوائے، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، کبھی الوداع نہ کہنا، میرا گھر میری جنت، انسانیت، دوستی، نمک حرام، اجنبی، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے، ویر گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ شامل ہیں۔
19899 ء میں انہوں نے لاہور سے ماہ نامہ ’’ہوش ڈائجسٹ‘‘ کا اجرأ کیا اور شام کا ایک روزنامہ اخباربھی شائع کیا مگر کچھ مجبوریوں کی بنا پر دونوں کچھ عرصہ ہی شائع ہو سکے۔ اس دوران نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے ایک ہفت روزہ فیملی میگزین کے اجرأ کا پروگرام بنایا۔ پہلے اسے کراچی سے شائع ہونا تھا مگر جب علی سفیان آفاقی کو مجید نظامی صاحب نے ادارات کی ذمہ داری سونپی تو فیملی میگزین کو لاہور سے نکالنے کے پروگرام کو حتمی شکل دے کر مجید نظامی صاحب کی مشاورت سے سٹاف مکمل کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فیملی میگزین کے بانی ایڈیٹرتھے جو دم آخرتک اسی سے منسلک رہے اور اسے خوب تر بنانے کے لئے کوشاں رہے۔
علی سفیان آفاقی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں:
علی سفیان آفاقی 22۔ اگست 19333ء کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ میں پرورش پائی اور قیام پاکستان کے بعد لاہورآگئے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجوایشن کی۔ 1951 ء میں اخبار ’’تسنیم‘‘ سے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا، بعد ازاں اخبار کے فلمی صفحہ کے انچارج بھی مقرر ہوئے اور یہیں سے ان کا فلمی دنیا سے ربط و ضبط بڑھا۔ فلمی صحافت میں ان دنوں شباب کیرانوی بھی فلمی رسالے کی ادارات کرتے تھے۔ یوں جب شباب کیرانوی نے فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنانے کا ارادہ کیا تو اس فلم کے مکالمے علی سفیان سے لکھوائے۔ اس کے بعد وہ کراچی کے ہفت روزہ ’’نگار‘‘ کے لئے لاہور کی ڈائری اور وقتًا فوقتًا مضامین بھی ’’علی بابا‘‘ کے قلمی نام سے لکھنے لگے مگر روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے طویل وابستگی کی وجہ سے ان کا نام علی سفیان سے زیادہ ’’ آفاقی‘‘ ان کی پہچان بن گیا۔
علی سفیان آفاقی مختلف اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے جن میں اقوام، آثار، آفاق، نوائے وقت، امروز، احسان، جنگ وغیرہ شامل ہیں۔
فلمی دنیا میں آفاقی کی شہرت فلم ’’فرشتہ‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ سے ہوئی۔ ان دونوں فلموں کے پر اثر مکالمے انہوں نے تحریر کئے تھے۔ انہی دنوں علی سفیان آفاقی نے ایک کہانی ’’کنیز‘‘ کے نام سے لکھی اور اسے کئی فلم سازوں کو سنایا مگر کسی کو پسند نہ آئی لیکن ان کو یقین تھا کہ اس کہانی کو فلما یا گیا تو اسے پسند کیا جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہدایت کار حسن طارق کے ساتھ مل کر خود اس فلم کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اداکارو حید مراد، محمد علی اور زیبا کو لے کر بحیثیت فلم ساز ’’کنیز‘‘ بنائی۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اسی فلم کے مکالموں پر انہوں نے نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ فلم ’’کنیز‘‘ کی کامیابی نے ثابت کردیا کہ وہ مزاحیہ فلموں ہی کے نہیں ڈرامائی مکالمے بھی لکھ سکتے ہیں۔ بعد ازاں فلم ’’سوال‘‘ اور ’’جوکر‘‘ کے مکالموں کو بھی شائقین ہی نہیں قائدین نے بھی سراہا۔ اور پھر علی سفیان آفاقی نے مصنف وفلم ساز کے بعد بطور ہدایت کار فلم ’’آس‘‘ 1973ء میں بنائی جس میں محمد علی اور شبنم نے مرکزی اداکار کئے تھے۔ فلمی رسالہ ’’ممتاز‘‘ کے مالک رشید جاوید کے اشتراک سے بننے والی یہ فلم بھی سپر ہٹ رہی جس نے آٹھ نگار ایوارڈ حاصل کئے، ان میں سے چارایوارڈ علی سفیان آفاقی نے بطور فلم ساز، ہدایتکار ، کہانی نویس اور مکالمہ نویس حاصل کئے بلکہ 1982 ء سے 1984 ء تک تین سال مسلسل نگار ایوارڈ حاصل کرنے کی ’’ہیٹ ٹرک‘‘ بھی کی۔ علی سفیان آفاقی نیشنل فلم ایوارڈ جیوری کے 1988ء سے 1991ء تک ممبر بھی رہے۔
علی سفیان آفاقی نے دیگر فلموں ہدایت کار فرید احمد کی فلم عند لیب ،ہدایت کارشریف نیئرکی فلم دوستی، ہدایت کار شمیم آرا کی فلم مس کو لمبو ،پلے بوائے، ہدایت کار لقمان کی فلم آدمی کے مکالمے بھی لکھے۔
علی سفیان آفاقی نے تیس سالہ فلمی دور میں پچاس سے زائد فلموں کے مکالمے اور کہانیاں لکھیں۔ ان کی چند مشہور فلموں میں ایاز، آدمی، سزا،آس، ٹھنڈی سڑک، فرشتہ، آج کل، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، سوال، دیوانگی، فاصلہ، میں وہ نہیں، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، عندلیب، ہم اور تم، صاعقہ، پلے بوائے، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، کبھی الوداع نہ کہنا، میرا گھر میری جنت، انسانیت، دوستی، نمک حرام، اجنبی، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے، ویر گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ شامل ہیں۔
19899 ء میں انہوں نے لاہور سے ماہ نامہ ’’ہوش ڈائجسٹ‘‘ کا اجرأ کیا اور شام کا ایک روزنامہ اخباربھی شائع کیا مگر کچھ مجبوریوں کی بنا پر دونوں کچھ عرصہ ہی شائع ہو سکے۔ اس دوران نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے ایک ہفت روزہ فیملی میگزین کے اجرأ کا پروگرام بنایا۔ پہلے اسے کراچی سے شائع ہونا تھا مگر جب علی سفیان آفاقی کو مجید نظامی صاحب نے ادارات کی ذمہ داری سونپی تو فیملی میگزین کو لاہور سے نکالنے کے پروگرام کو حتمی شکل دے کر مجید نظامی صاحب کی مشاورت سے سٹاف مکمل کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فیملی میگزین کے بانی ایڈیٹرتھے جو دم آخرتک اسی سے منسلک رہے اور اسے خوب تر بنانے کے لئے کوشاں رہے۔
علی سفیان آفاقی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں:
- دیکھ لیا امریکہ،
- امریکہ چلیں،
- ذرا انگلستان تک،
- دورانِ سفر،
- طلسمات فرنگ،
- خوابوں کی سرزمین،
- نیل کنارے،
- یورپ کی الف لیلہ،
- عجائبات فرنگ،
- گوریوں کا دیس،
- موم کا آدم،
- یورپ کا کوہ قاف،
- پیرس کی گلیاں،
- سفر نامہ ترکی،
- سفر نامہ سری لنکا،
- سفر نامہ سپین، سر چھایا نورجہاں،
- شعلہ نوا شورش کاشمیری،
- ساحر لدھیانوی،
- چاند چہرے،
- محمد علی جناح۔
علی سفیان آفاقی 27جنوری 20155ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
بشکریہ طارق جمیل۔۔۔۔